اسپغول کا یہ نام فارسی کے دو لفظوں سے مل کر بنا ہے۔ ایک لفظ ’’اسپ‘‘ یعنی گھوڑا اور دوسرا ’’غول‘‘ یعنی کان۔ گویا گھوڑے کا کان یعنی اس دوا کی شکل گھوڑے کے کان سے ملتی ہے۔ فارسی کا یہ نام اس قدر مشہور ہوا کہ برصغیر میں بھی سب اسے اسپغول کے نام سے پکارنے لگے۔
اس کا پودا ایک گز بلند ہوتا ہے اور ٹہنیاں باریک ہوتی ہیں۔ سرخ رنگ اور سفیدی مائل چھوٹے بیج ہوتے ہیں جسے اسپغول کہتے ہیں۔ ذائقہ میں پھیکا ہوتا ہے اور منہ میں ڈالنے پر لعاب پیدا کرتا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ اسپغول کا اصل وطن ایران ہے۔ اگرچہ درست ہو مگر دنیا میں اکثر جگہوں پر یہ خودرو پیدا ہوتا ہے۔ عرب میں بھی اس کو پایا گیا ہے۔
اسپغول کے فوائد و خواص
ڈاکٹروں نے اسے استعمال کیا اور اس کے عام فوائد کی تصدیق کی اور لیبارٹری میں اس کا کیمیائی تجزیہ کیا گیا اس سے جو بات سامنے آئی یعنی اسپغول کے بیجوں میں فیٹس یعنی حشمی روغن پایا گیا۔ زلالی مادہ اور فالودہ نما جیلی جیسا لعاب ہے۔ دراصل یہ لعاب ہی وہ مادہ ہے جو انسانی جسم میں بیماری کے خلاف اپنا اثر دکھاتا ہے۔
اس لعاب کی ایک حیرت انگیز مثال یہ ہے کہ انسانی جسم میں چوبیس گھنٹے تیزاب یعنی ہائڈروکلورک ایسڈ جیسے تیز اثر تیزاب اور لیلیے کے تیزاب میں رہنے کے باوجود اسپغول کے لعاب کا برائے نام حصہ ہضم ہوتا ہے اور تمام ہضم کے عمل کے درجات کو طے کرتا ہوا بڑی آنت میں موجود جراثیم پر اثرانداز ہوتا ہے اور ان کو کولونائزیشن کو منجمد کردیتا ہے ان تیزابوں کی اثرانگیزی اس پر کچھ اثرنہیں کرتی اور پھر آگے جاکر یہ لعاب یعنی جیلی ان جرثوموں مثلاً مبسی لس شیگا‘ سیسی لس فلیکس نر‘ سینسی لس کولائی اور سیسی کرکالر ابھی اس پر اثرانداز نہیں ہوسکتے۔مشاہدے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ اسپغول کا لعاب چھوٹی آنت کی کیمیائی خمیرات کا زیادہ اثر نہیں لیتا اور نہ معدے کے کرشمات کا اثر لیتا ہے اور نہ بڑی آنت میں موجود جراثیم اس کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں۔یہ لعاب آنتوں کے زخموں اور خراشوں پر بلغمی تہہ چڑھا دیتا ہے اور بیکٹیریا کے نشوونما کو احسن طریقہ سے روک دیتا ہے اور جو زہریلے مواد جو ان بیکٹیریا کی موجودگی سے پیدا ہوتے ہیں ان کو جذب کرلیتا ہے۔ اسپغول کے بارے میں جو اطباء رائے رکھتے ہیں ان کے مطابق یہ دوسرے درجے کا سرد ہے اور بعض کے نزدیک تیسرے درجے کا سرد ہے۔
اسپغول کا استعمال
اسپغول کو عام طور پر پیچش کے امراض میں زیادہ استعمال کروایا جاتا ہے اور یہ پیچش بیکٹیریا سے ہوں یا وائرس دونوں میں اس کا استعمال واجب قرار دیا گیا ہے۔ اسپغول کا لعاب آنتوں کو خراشوں سے محروم رکھتا ہے اور ان خراشوں پر لعابی تہہ چڑھا دیتا ہے جس سے فضلہ کا زہریلا اثر ان خراشوں اور زخموں پر نہیں ہوتا۔اسپغول میں دو طرح کے معجزاتی کرشمے ہیں اگر مریض کو قبض ہو تو پاخانہ کھولتا ہے اور اگر پیچش ہو تو اس کا تدارک کرتا ہے یعنی دونوں صورتوں میں مستعمل ہے۔
یادرکھنے کی بات یہ ہے کہ اسپغول تخم ہے اور اس کا چھلکا جس کو مخصوص طرح سے الگ کیا جاتا ہے اس کو بھوسی کہا جاتا ہے۔ اسپغول میں قبض پیدا کرنے کی یعنی میکانکی رکاوٹ بننے کی قدرتی خاصیت موجود ہوتی ہے جبکہ اس کی بھوسی میں یہ میکانکی رکاوٹ بننے کی صلاحیت نہیں ہوتی اس لیے اسپغول کے بیج کو وہاں استعمال کرنا ضروری ہے جہاں رکاوٹ پیدا کی جائے اور بھوسی کو اکثر اطباء وہاں استعمال کرتے ہیں جہاں قبض پیدا کرنا مقصود ہو۔
گرمی کے بخار میں تسکین رہتی ہے۔ سینہ اور زبان‘ حلق کے کھرکھرے پن میں بھی فائدہ پہنچاتا ہے۔ سرکہ اور گل روغن کو باہم ملا کر اور اسپغول کے لعاب کے ساتھ استعمال سردرد کیلئے مفید ہے۔ سخت سوزش اور جلن والے دانوں‘ کن پیڑے اور گھٹنوں کی درد میں تیل میں اسپغول کو پکا کر باندھنے سے افاقہ ہوتا ہے۔ سخت اور خون کی آمیزش والے پیچش میں تخم ریحان‘ بیل گری‘ تخم بالنگو‘ اسپغول کو برابر وزن لے کر استعمال کرنا فوری تدارک کا باعث ہے۔ پیٹ کی عمومی امراض اور تبخیر معدہ میں اس کی صبح و شام خوراک لینا فائدہ مند ہے۔ رات کو 2 چمچ اسپغول ایک کپ پانی میں بھگو دیں اور صبح تھوڑی سی چینی ملا کر کھائیں اس معدہ کی حدت یعنی گرمی کم ہوجاتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں